Sunday 24 May 2015

مسلمانانِ ہند سے خطاب ۔ جامع مسجد دہلی اکتوبر ۱۹۴۸

میرے عزیزانِ گرامی! میں آپ سے یہ بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کسی خونچکاں نعش پر ایک ریشمی لحاف ڈال دو گے تو کیا یہ ثابت کر سکو گے کہ یہ مردہ نعش نہیں ہے؟ 

اللہ علیم ہے کہ مجھے سورج اور چاند کے وجود کا اتنا یقین نہیں جتنا حق کی کامیابی اور باطل کے خسران پر ایمان ہے۔ 
کوئی سچی بات اس لیے ترک نہیں کی جاسکتی کہ لوگ اُس کا استقبال نہیں کریں گے ۔ سچ سچ ہے اگرچہ تمام  عالم میں اس کا ایک بھی دوست نہ ہو۔ 

اگرچہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کو چراغ کی روشنی دھندلی نظر آتی ہو تو یہ ان کی آنکھوں کا ضعف ہے۔ ان کی خاطر  چراغ گل نہیں کیے جا سکتے۔ 

مسلمانانِ دلی سے خطاب اکتوبر 1948ء 
۔۔ 

آزاد رہنا ہر فرد اور قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسان کی گاڑھی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کتنے ہی خوشنما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں لیکن وہ محکومی اور غلامی ہی ہے ۔ اور خدا کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف ہے۔ چنانچہ جب ہمارا اسلام مسلمانوں کو یہ فرض قرار دیتا ہے کہ ایسی مسلمان حکومت کو بھی منصفانہ تقسیم نہ کریں جو قوم کی رائے اور انتخاب سے وجود میں نہ آئی ہو۔ اگرچہ آج ہندوستان میں ایک خالص مسلم حکومت قائم ہو جائے مگر اس کا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہو تو اس وقت بھی میرا یہ فرض ہوگا کہ اُسے ظالم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ 

مولانا ابوالکلام آزاد 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔