Tuesday 21 April 2020

کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا ۔ مولانا آزاد

کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا

کوئی نالاں، کوئی گریاں، کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگِ محفل ہو گیا

اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدا اے دستِ قاتل ہو گیا

قیس مجنوں کا تصور جب بڑھ گیا نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیِ محمل ہو گیا

یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا