Thursday 13 August 2015

Tuesday 14 July 2015

اسلام اور نیشنلزم



Islam aur Nationalism

PDF


Sunday 12 July 2015

حیاتِ سرمد PDF


سرمد شہید کی خونی داستان۔ جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے خواجہ حسن نظامی کی خواہش پر سپرد قلم کیا۔


Thursday 9 July 2015

آزاد کی تقریریں PDF


مولانا آزاد کی تقریریں


Tuesday 7 July 2015

Wednesday 1 July 2015

افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را


لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کوئی کام نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا:

غبارِ خاطر سے اقتباس

 تنہائی خواہ کسی حالت میں آئے اور کسی شکل میں، میرے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا پائے گی۔  ابتدا ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور جلوت سے گریزاں رہتا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبعِ وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی رہتی ہے۔ جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور وہ اپنی کامجوئیوں میں لگ گئی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غبارِ خاطر ۔۔ صفحہ 104،105

تنہائی خواہ کسی حالت میں آئے اور کسی شکل میں، میرے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا پائے گی۔
ابتدا ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور جلوت سے گریزاں رہتا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبعِ وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی رہتی ہے۔ جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور وہ اپنی کامجوئیوں میں لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ خاطر ۔۔ صفحہ 104،105

Saturday 27 June 2015

پاکستان ایک سیاسی تجربہ ہے، اسے کامیاب کیجیے


پاکستان ایک سیاسی تجربہ ہے۔ پاکستان کے ارباب حل و عقد کا فرض ہے کہ اس تجربے کو کامیاب بنائیں، ادھر ہندوستان کے ارباب بست و کشاد کو لازم ہے کہ پاکستان کو ایک حقیقت مان لیں اور تسلیم کر لیں کہ اب جانبین میں دوستانہ تعلقات اور اشتراکِ عمل ہی ان کی بقا و استحکام کا باعث ہو سکتے ہیں اگر نفرت کا شعلہ بھڑکتا رہا تو دونوں ملک عالمی طاقتوں کے مقاصد کی چِتا میں بھسم ہو جائیں گے ۔ یاد رہے کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا کوئی سی طاقت اپنے اغراض کی خاطر تضادات سے مصافحہ و معانقہ کرتی ہے تو اس میں آخر کار خسارا ہی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔
ابوالکلام آزاد از شورش کاشمیری صفحہ نمبر 238۔

Friday 26 June 2015

مولانا ابوالکلام آزاد کی سحر خیزیاں

مولانا کی سحر خیزی
۔۔۔
آج تین بجے سے کچھ پہلے آنکھ کھل گئی تھی۔ صحن میں نکلا تو ہر طرف سناٹا تھا صرف احاطہ کے باہر سے پہرہ دار کی گشت و بازگشت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہاں رات کو احاطہ کے اندر وارڈروں کا تین تین گھنٹے کا پہرہ لگا کرتا ہے۔ مگر بہت کم جاگتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اُس وقت بھی سامنے کے برآمدے میں ایک وارڈر کمبل بچھائے لیٹا تھا اور زور زور سے خراٹے لے رہا تھا۔ بے اختیار مومن خان کا شعر یاد آ گیا:

Tuesday 23 June 2015

Sunday 24 May 2015

مسلمانانِ ہند سے خطاب ۔ جامع مسجد دہلی اکتوبر ۱۹۴۸

میرے عزیزانِ گرامی! میں آپ سے یہ بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کسی خونچکاں نعش پر ایک ریشمی لحاف ڈال دو گے تو کیا یہ ثابت کر سکو گے کہ یہ مردہ نعش نہیں ہے؟ 

اللہ علیم ہے کہ مجھے سورج اور چاند کے وجود کا اتنا یقین نہیں جتنا حق کی کامیابی اور باطل کے خسران پر ایمان ہے۔ 
کوئی سچی بات اس لیے ترک نہیں کی جاسکتی کہ لوگ اُس کا استقبال نہیں کریں گے ۔ سچ سچ ہے اگرچہ تمام  عالم میں اس کا ایک بھی دوست نہ ہو۔ 

اگرچہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کو چراغ کی روشنی دھندلی نظر آتی ہو تو یہ ان کی آنکھوں کا ضعف ہے۔ ان کی خاطر  چراغ گل نہیں کیے جا سکتے۔ 

مسلمانانِ دلی سے خطاب اکتوبر 1948ء 
۔۔ 

آزاد رہنا ہر فرد اور قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسان کی گاڑھی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کتنے ہی خوشنما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں لیکن وہ محکومی اور غلامی ہی ہے ۔ اور خدا کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف ہے۔ چنانچہ جب ہمارا اسلام مسلمانوں کو یہ فرض قرار دیتا ہے کہ ایسی مسلمان حکومت کو بھی منصفانہ تقسیم نہ کریں جو قوم کی رائے اور انتخاب سے وجود میں نہ آئی ہو۔ اگرچہ آج ہندوستان میں ایک خالص مسلم حکومت قائم ہو جائے مگر اس کا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہو تو اس وقت بھی میرا یہ فرض ہوگا کہ اُسے ظالم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ 

مولانا ابوالکلام آزاد 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday 5 May 2015

مولانا ابوالکلام آزاد ۔ عربی تہذیب کی اردو تصویر تھے


مولانا ابوالکلام آزاد ۔ عربی تہذیب کی اُردو تصویر تھے

"مہادیو ڈیسائی مولانا ابوالکلام آزاد مغلی تہذیب کا اُجلا نقش کہتے ہیں۔ لیکن وہ مغلی تہذیب سے کہیں زیادہ عربی تہذیب کی اُردو تصویر ہیں۔ وہ دھلی مرحوم کے نہیں بغداد مرحوم کے انسان تھے۔

Sunday 3 May 2015

مولانا ظفر علی خاں کے مولانا آزاد کے بارے میں تاثرات


آغا شورش کاشمیری "ابوالکلام آزاد" جو مولانا کی سوانح عمری ہے کہ صفحہ نمبر 482 میں رقمطراز ہیں
"مولانا محمد علی جوہر سے تو راقم شخصی نیاز نہیں رہا کہ ان کی رحلت کے وقت راقم ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن مولانا ظفر علی خاں سے شرفِ تلمذ حاصل کیا، خیبر سے مانڈلے تک ان کے ساتھ شریکِ سفر رہا۔ ہندوستان کی سیاست اور مختلف شخصیتوں کے بارے میں جب بھی اُن سے بات چیت ہوتی تو ان نجی محفلوں میں قلم و زبان کی تیزی سے پرہیز کرتے۔ ان کے تبصرے نہایت نپے تُلے اور لگے بندھے ہوتے۔ کئی دفعہ مولانا آزادؒ کا ذکر آیا تو ان کے متعلق نہایت وقیع رائے ظاہر کی۔ ایک دفعہ کہیں سفر پر جا رہے تھے عملہ نے اصرار کیا تو جاتے جاتے ایک طویل نظم بالبداہت ارشاد فرمائی، مطلع تھا
؎
مجھے بھی انتساب ہے ادب کے اس مقام سے
ملی ہوئی ہے جس کی حد قدم گہ نظام سے
دسواں یا گیارھواں شعر تھا؎
جہاں اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے

راقم ہمراہ تھا۔ استفسار کیا۔

Tuesday 21 April 2015

نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی ۔ مولانا آزاد


نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی

گنبد ہے گردبار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی

ہوں نرم دل کہ دوست کے مانند رو دیا
دشمن نے بھی جو اپنی مصیبت بیان کی

آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی

۔۔
مولانا ابوالکلام آزاد




Friday 17 April 2015

مولانا ابوالکلام آزاد بحثیت شاعر


مولانا ابوالکلام آزاد بحثیتِ شاعر
۔۔۔۔۔

بحیثیت شاعر مشاہیر کے ساتھ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کے جو نمایاں پہلو ہوتے ہیں صرف وہی معروف اور قابلِ توجہ ہوتے ہیں ۔ بلکہ صرف انہیں پہلوؤں کو درخورِ اعتناء سمجھا جاتا ہے جو معروف ہوں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عظیم شخصیات کا دائرۂ کار کسی مخصوص میدان تک محدود نہیں رہا ، بلکہ ازراہِ تفننِ طبع وہ دوسرے میدانوں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ جن میدانوں میں شہرت نہیں ملتی، ان میں بھی عبقری شخصیات کا امتیاز رہتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی ‘ مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خاں، علامہ قاری طیب اور مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے، جن کے مختلف کمالات اور نمایاں کارناموں کی وجہ سے ان کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو اور ان کی شاعری پر توجہ نہیں دی گئی۔

Friday 10 April 2015

یادِ رفتگاں ۔۔۔۔ مولانا ابوالکلام آزاد

کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجاتی تھی۔ انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم نہرو تک ان سے وقت طے کرکے ملاقات کیا کرتے تھے۔ نہرو کا کہنا ہے کہ ’مولانا کےعلم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ دکھائی دیتا ہے‘ عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ ’ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آ پہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ فرمایا ’ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں‘ عرض کیا ’غور فرما لیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟ ‘کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ’اور کیا؟ گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے۔ گاندھی جی بھی مہاتما تھے بغیر ماتھے پہ شکن ڈالے واپس چلے گئے اور اگلے دن نو بجے تشریف لائے۔   ‘مولانا آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا نا ممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ وہ تحریر و تقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ حکمت میں عقدہ کشا، سیاست میں صاحب تدبیر، حکومت میں فیض ذیشان اور بزم میں صاحب علم و کمال تھے۔ ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثل شخصیت قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں۔‘‘بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں، بلکہ عہد سازتھیں

کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجاتی تھی۔ انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم نہرو تک ان سے وقت طے کرکے ملاقات کیا کرتے تھے۔ نہرو کا کہنا ہے کہ ’مولانا کےعلم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ دکھائی دیتا ہے‘ عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ ’ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آ پہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ فرمایا ’ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں‘ عرض کیا ’غور فرما لیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟ ‘کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ’اور کیا؟ گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے۔ گاندھی جی بھی مہاتما تھے بغیر ماتھے پہ شکن ڈالے واپس چلے گئے اور اگلے دن نو بجے تشریف لائے۔ 

‘مولانا آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا نا ممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ وہ تحریر و تقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ حکمت میں عقدہ کشا، سیاست میں صاحب تدبیر، حکومت میں فیض ذیشان اور بزم میں صاحب علم و کمال تھے۔ ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثل شخصیت قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں۔‘‘بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں، بلکہ عہد سازتھیں

Thursday 26 February 2015

مولانا آزاد کا تکیہ کلام


مولانا آزاد کا تکیہ کلام
۔۔۔۔


"ملیح آبادی نے ذکرِ آزاد میں لکھا ہے مولانا جب کسی کو بنانا چاہتے یا اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے تو اکثر "میرے بھائی" کہہ کر باتیں کرتے تھے، یار لوگوں نے اس کو اپنے لیے اعزاز جان لیا تھا۔ لیکن بولتے چالتے یہ جملہ ان کا تکیہ کلام بن گیا  اور آخر عمر تک زبان پر چڑھا رہا۔"


Sunday 22 February 2015

مولانا ابوالکلام آزاد کا اندازِ گفتگو

مولانا کا اندازِ گفتگو
۔۔۔۔۔

مولانا گفتگو کے عصری فرمانروا تھے۔ ہندوستان بھر میں ان سے بڑا گفتگو طراز کوئی نہ تھا۔ زبان ان کی لونڈی اور بیان ان کا پیش کار، اور علم ان کا مصاحب تھا۔ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کا شعلۂ گفتار کجلا جاتا، وہ کمزور گفت گو سن ہی نہ سکتے تھے۔ کسی نے بات کی انہوں نے جھول محسوس کیا فورا رشتۂ سخن کاٹ کے فرماتے تو میرے بھائی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں۔ اور جس کی بات ہوتی وہ حسرت و حیرت سے دیکھتا اور سوچتا کاش نطق کا یہ اعجاز مجھ میں ہوتا۔
ہندوستان کا کوئی مسلمان،  پارسی، ہندو یا سکھ رہنما ان کے پایہ کا گفتگو طراز نہ تھا۔ سب ان سے مرعوب ہوتے اور ان کے سحر میں بہہ جاتے تھے۔ اجمل خاں لکھتے ہیں:

"جی چاہتا تھا صبح سے شام ان کی شیرینیِ گفتار اور نمکینیِ ادا سے ذائقہ سماعت کرتے رہو"۔
(اردو ادب صفحہ نمبر ۲۷ آزاد نمبر)

ملیح آبادی نے ذکرِ آزاد میں لکھا ہے:
"مولانا از حد زندہ دل آدمی تھے۔ طبیعت میں مزاح کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ زیادہ سے زیادہ سنجیدہ اور خشک سے خشک مباحث کے لیے بھی ان کا ذہن ویسا ہی حاضر تھا جیسا کے مزاح و مزاق کے لیے، ایک ہی وقت میں مزاح بھی کرسکتے تھے اور سنجیدہ گفتگو بھی، بلکہ ان کی سنجیدہ گفتگو میں بھی ظرافت کی چاشنی رہا کرتی تھی۔"
لیکن ان کا مزاح پھکڑ، ابتزال اور طعن نہ تھا۔ وہ مطائبات کے حدود میں رہتے نہایت شستہ و رفتہ مزاق کرتے۔
دعا دے مجھے اے زمینِ سخن 
کہ میں نے تجھے آسماں کر دیا

۔۔۔

Sunday 8 February 2015

امامِ عشقِ جنوں ۔ سید عبداللہ

ابوالکلام آزاد ۔۔۔۔۔ امامِ عشق و جنوں
۔۔۔

ابوالكلام ميں عقيدے كى پختگى اور عمل كى محكمى كے ساتھ ساتھ مشرب و ذوق كى وسعت و رنگينى كا عجيب و غريب امتزاج ہے جو كہ اپنى انفراديت كے اعتبار سے اتنا نادر ہے كہ گزشتہ تاريخ كى كئى صديوں ميں بهى اس كى تركيب و تشكيل كے مزاج كى مثاليں مشكل سے مليں گى ___ اور ندرت كى بنياد يہ ہے كہ ان كى ذات ميں مشرب كى وسعت اور نظر كى جمال آشنائى كے ساتھ ساتھ عقيدے كى سختى اور مذہب كى پختگى بهى جمع ہے ___ اور يہ اجتماع ظاہر ہے كہ بڑا غير معمولى اور بے حد نادر ہے

قيس سا پهر نہ اٹها كوئى بنى عامر ميں
فخر ہوتا ہے گهرانے كا سدا ايک ہى شخص

۔۔۔
ڈاكٹر سيد عبداللہ

Saturday 7 February 2015

غبارِ خاطر ۔ PDF




  ”غبار خاطر“ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔ اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور خط غبار من است این غبار خاطر سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے.

Tuesday 3 February 2015

الہلال ۔۔۔۔ مختصر تعارف

الہلال  ۔۔۔    اردو کا ہفت روزہ اخبار جسے مولانا ابوالکلام آزاد نےجولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب ، سیاسیات ، معاشیات ، نفسیات ، جغرافیہ ، تاریخ ، ادب اور حالات حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خلافت اور سول نافرمانی کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہلال پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی اور اخبار بند ہوگیا ۔ 1927ء میں الہلال پھر نکلا مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ان کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہلا باتصویر سیاسی پرچہ تھا جو اپنی اعلیٰ تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک میں انقلاب آفریں تبدیلیاں لایا۔

اردو کا ہفت روزہ اخبار جسے مولانا ابوالکلام آزاد نےجولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب ، سیاسیات ، معاشیات ، نفسیات ، جغرافیہ ، تاریخ ، ادب اور حالات حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خلافت اور سول نافرمانی کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہلال پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی اور اخبار بند ہوگیا ۔ 1927ء میں الہلال پھر نکلا مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ان کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہلا باتصویر سیاسی پرچہ تھا جو اپنی اعلیٰ تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک میں انقلاب آفریں تبدیلیاں لایا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا مختصر تعارف

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جواکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھرجامعہ ازہر (مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ءمیں الہلال نکالا۔

یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگرس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ 22 فروری1958ءکو انتقال ہوا۔

بھارت کی سیاست میں مشہور، معروف اور مقبول ناموں میں سے مولانا آزاد کا نام تھا۔ بھارت کے عظیم لیڈروں میں مولانا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔

بیادِ مولانا ابوالکلام آزاد ۔۔۔ شورش کاشمیری

دیدہ ورانِ دیں کا نشاں تھا ابوالکلام
ہندوستاں کی روحِ رواں تھا ابوالکلام

لذتِ کشان بادۂ ایثار زندہ باد
اس انجمن کا پیرِ مغاں تھا ابوالکلام

اس سر زمیں کے منبر و محراب ہیں گواہ
بتخانۂ وطن میں اذاں تھا ابوالکلام


تھے اس پہ واشگاف سیاست کے پیچ و خم
اک شہ دماغ و سیفِ زباں تھا ابوالکلام

اربابِ اقتدار کی ہیبت سے بے نیاز
طاعت گزارِ ربِ جہاں تھا ابوالکلام

شورش جنہیں تھا اس کی بصیرت سے اختلاف
وہ اب سمجھ رہے ہیں کہاں تھا ابوالکلام

۔۔
آغا شورش کاشمیری

Monday 2 February 2015

مولانا آزاد سے کس کا کتنا رشتہ؟

بشکریہ Maulana Abul Kalam Azad (Abul Kalam Muhiyuddin Ahmed) مولانا ابوالکلام آزاد

عبقری اورنابغہ روزگار شخصیات سے انتساب یا ان سے قرابتداری کا اظہار کوئی عجب نہیں ، بلکہ مستحسن ہے ، باعث افتخار ہے ۔ یہ انتساب ازروئے شرع بھی غلط نہیں ۔ خودآقاءدوجہاں ﷺ نے بھی اپنی ذات کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات سے تشبیہ دی ہیں ،حنفیت میں بھی ان کی جانب اپنے کو منسوب کیا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیدائے حرم بھی اپنے نام سے قبل ”محمد“ لگاتے ہیں۔

مولانا آزاد (1888-1958) بھی نابغہ روزگار تھے ، اپنی مثال آپ تھے ، ایک طرف وہ آسمانِ صحافت پر محو پرواز تھے تو دوسری طرف فہم وفراست کے سمندرکے غواص و شناور ۔ معرفت الہی کے پیکر تھے ، علم کے بحرذخار تھے ،سیاسی بصیرت اورنکتہ سنجی کے امام تھے، اسی طرح علم دوست اورسچے محب وطن ہی نہیں مجاہد آزادی بھی تھے ۔ ایسی شخصیت سے انتساب ظاہر ہے باعث صد افتخار ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد سے قرابتداری اور رشتہ داری بنانے کی سیاست ہمہ زمانہ تیز تر رہی ہے ۔ چونکہ مولانا کی کوئی کی اولاد بقیدحیات نہیں رہ سکی ،اس لئے ان کے ہر رشتہ دار ان سے قریب ترین ہونے کا اظہار کرکے سیاسی مراعات اور عہدہ کے حصول میں سرگرداں ہیں ۔ ان کا لیبل چسپاں کرکے اپنی ناک اونچی کرنے میں جٹے ہیں ۔ یوں تو کئی دہائیوں سے ہی یہ سلسلہ چل پڑا ہے ۔جناب نورالدین و جناب فیروز بخت احمد اور جناب نجمہ ہیبت اللہ کے درمیان کافی دنوں سے اسی کو لے کر کشیدگی ہے ۔ نجمہ صاحبہ اپنے آپ کو مولانا کی قریبی رشتہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کو شش کررہی ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اوربسااوقات کذب بیانی کی بھی نوبت آجاتی ہے ، ان کے اس عمل سے مولانا آزاد کے ثنا خوانوں اورمداحوں کو کفت بھی ہوئی ہے ۔

ادھر چنددنوں قبل عامر خان نے بھی اپنے لخت جگر کے نام کے ساتھ ”آزاد“ جوڑ کر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، عامر خان نے مولانا کو پردادا قراردیا ہے ۔ ان کے اس اقدام یااعلان کے بعد ملک کے بیشتر باشندگان کوتعجب ہوا کہ مولانا عامر خان کے کیسے پرداداہیں؟ کیونکہ ماقبل میں انہوں نے کبھی بھی مولانا کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا تھا ۔نجمہ صاحبہ کی کذب بیانی نقل کرنے سے قبل مناسب معلوم پڑتاہے کہ جناب فیروز بخت احمد ، جناب نجمہ ہپت اللہ اور جناب عامر خان کا مولاناآزاد ؒسے کیا رشتہ ہے، پر گفتگوکی جائے ۔

عامرخان:
مولاناآزادؒ کی ایک ہمشیرہ کا نام فاطمہ بیگم آرزو تھا ، جن کا نکاح سید معین الدین عرب سے ہواتھا ، ان کے یہاں پانچ اولادہوئیں ، آمنہ بیگم، یوسف علی ، حامد علی ، رقیہ بیگم اورصفیہ بیگم ۔ آمنہ بیگم (جو مولانا آزاد ؒکی بھانجی تھی)کا عقد جعفر علی خان شاہ آبادی سے ہوا ۔ ان کے بھی پانچ بچے تھے ، باقر حسین ، انیس جہاں ، بلقیس جہاں ، ناصر حسین اورطاہر حسین ۔ طاہر حسین کے ہی بیٹے مشہور ادارکار عامر خان ہیں ۔ یعنی مولانا آزادؒ کی بھانجی (آمنہ )عامر خان کی دادی تھی ،چنانچہ آمنہ کی ماں( فاطمہ) ان کی پردادی ہوئی اور مولانا آزاد ؒ عامر کی پردادی کے بھائی ،گویا مولانا ان کے پردادا ۔

نجمہ ہپت اللہ:
یوسف علی (جو آمنہ کے بھائی یعنی مولانا آزاد کے بھانجے تھے)کا عقد فاطمہ بنت محمد قاسم سے ہوا تھا ، ان کی تین اولاد ہوئیں ، اختر علی، نجمہ ہیبت اللہ اورعظمی ۔ نجمہ کے والدیوسف علی مولانا آزاد کے بھانجے تھے ، گویامولانا آزادؒ نجمہ کے ممیرے داداتھے ۔

مولانا آزاد کو حکومت کی جانب سے اب کوئی اعزاز یا ان کے قریبی رشتہ دارکوکوئی جاہ و منصب دیاجائے توا س اعزاز یا منصب کا مستحق کون ہوگا؟ اس کافیصلہ حکومتی افراد یا پھر علماءدین شرع متین ازروئے شرع اسلام کریں ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے سامنے مولانا آزادؒ کا صحیح شجرہ نصب موجود ہو۔ تاہم سوال یہ ہوتا ہے کہ جو لو گ مولانا آزادؒکی خدمات یاان سے رشتہ داری کے سہارا کچھ یا بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، انہوں آزاد ؒ کے کارنامے کو زندہ وتابندہ لکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے کیا کچھ کیا ہے ۔ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈال کر انہیں کس نے زندہ رکھا ہے ؟ اس سوال پر ذرابھی توجہ دینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادؒ سے محبت کا دم بھرنے یا رشتہ داری بنانے والوں میں صرف فیروزبخت احمدہی نمایاں ہیں ۔ ان کی حیات و خدمات اورکارہائے نمایاں کا ذکر گرشتہ تین دہائیوں سے صرف وہی کررہے ہیں ۔ چونکہ موصوف تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا سے بھی وابستہ ہیں ، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مولانا آزاد کا خمیر ان کے اندر ہے ۔ کسی نہ کسی حد تک ان کے خیالات مولاناآزادؒ سے ہم آہنگ ہیں ۔ موصوف یہ نہ صرف کہ اردو کی زلف کو ہی سنوارتے ہیں بلکہ ہندی اورانگریزی کے بھی دلدادہ ہیں ۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی انگلش اخبارات بھی ان کے مضامین بڑے شوق سے نرالے انداز میں چھاپتے ہیں ، جن سے آزاد کے افکار وخیالات ٹپکتے نظر آتے ہیں ۔ فیروز بخت احمد کی یہ قناعت پسندی بھی قابل دادوتحسین ہے کہ ایک اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کبھی مولانا آزاد ؒ کا نام غلط طریقہ پر استعمال کرکے بڑے مقام تک پہنچنامناسب نہیں سمجھا ، حالانکہ فی الوقت وہ ملک کے انگلیوں پر گنے چنے چند ماہرتعلیم میں سے ایک ہیں۔ ہاں ! یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں کسی نامور قلم کار اور محب اردو نے فیروز بخت احمد کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے انہیں مولانا آزادؒ سے بھی دو قدم آگے بڑھادیا ۔ ھم ان کی صحافتی اور تدریسی خدمات کے منکر نہیں ، مگر وہ آزادؒ کے شانہ بہ شانہ ہی نہیں بلکہ دو قدم آگے ہیں ، قطعی اس کے قائل نہیں ۔

اب رہی بات جناب نجمہ ہپت اللہ کی تو ان کے کارنامے کچھ ایسے ہیں جنہیں سپرد ِ قلم وقرطاس کرتے بھی شرم وعار محسوس ہورہی ہے ۔63ویں یوم آزادی کے موقع پر نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے انٹر نیشنل سینٹر میں مولاناآزادؒ کی خدمات کو سراہنے کے لئے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا ، جس کا افتتاح چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کیا ، ان کی نظر جب مولانا آزاد کے شجرہ نصب پر پڑی تو نجمہ کا نام تھا اورفیروز بخت احمدکا نہیں ۔ انہوں نے افسر راجامنی سے اس بابت دریافت کیا توانہوں نے کہا ان کا نام مولانا آزاد ؒ کے رشتہ دارہونے میں متنازع ہے ،چنانچہ حکومت نے ان کا نام تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شجرہ نصب کیسے تیار کیاگیا ،جس میں اتنے قریبی رشتہ کو برطرف کردیاگیا ۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولاناکا بھارت رتن فیروزبخت احمد کے والد کو ملا ، وہ وارث اورفیروز صاحب نہیں ، آخر کیسا تضاد ہے یہ؟ اس ایوارڈ کوحاصل کرنے میں نجمہ نے بڑی چالاکی دکھائی ، مگرانہیں منہ کی کھانی پڑی۔
1988میں ”انڈیا فریڈم“کے آخری 30صفحات کی رائلٹی مولانا آزاد کے قریبی رشتہ دارکو ملنے والی تھی ، اس کے لئے بھی نجمہ ہپت اللہ نے سبک روی دکھائی مگرناکامی ہی ان کے ہاتھ آئی ۔ یہ بھی فروز بخت احمد کے والد جناب نورالدین ؒ کو ملی۔فی الواقع نجمہ کا یہ کردار ہر اعتبار سے قابل گرفت ہے ، ملک ھندوستان کی شرمساری ہے ، مولانا کے مداحوں کی بے عزتی ہے ، مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہے ۔ کیااس مدعے پر دانشمندوں اور حکومت کو نہیں سوچنا چاہئے

عامرخان:
مولاناآزادؒ کی ایک ہمشیرہ کا نام فاطمہ بیگم آرزو تھا ، جن کا نکاح سید معین الدین عرب سے ہواتھا ، ان کے یہاں پانچ اولادہوئیں ، آمنہ بیگم، یوسف علی ، حامد علی ، رقیہ بیگم اورصفیہ بیگم ۔ آمنہ بیگم (جو مولانا آزاد ؒکی بھانجی تھی)کا عقد جعفر علی خان شاہ آبادی سے ہوا ۔ ان کے بھی پانچ بچے تھے ، باقر حسین ، انیس جہاں ، بلقیس جہاں ، ناصر حسین اورطاہر حسین ۔ طاہر حسین کے ہی بیٹے مشہور ادارکار عامر خان ہیں ۔ یعنی مولانا آزادؒ کی بھانجی (آمنہ )عامر خان کی دادی تھی ،چنانچہ آمنہ کی ماں( فاطمہ) ان کی پردادی ہوئی اور مولانا آزاد ؒ عامر کی پردادی کے بھائی ،گویا مولانا ان کے پردادا ۔

نجمہ ہپت اللہ:
یوسف علی (جو آمنہ کے بھائی یعنی مولانا آزاد کے بھانجے تھے)کا عقد فاطمہ بنت محمد قاسم سے ہوا تھا ، ان کی تین اولاد ہوئیں ، اختر علی، نجمہ ہیبت اللہ اورعظمی ۔ نجمہ کے والدیوسف علی مولانا آزاد کے بھانجے تھے ، گویامولانا آزادؒ نجمہ کے ممیرے داداتھے ۔

مولانا آزاد کو حکومت کی جانب سے اب کوئی اعزاز یا ان کے قریبی رشتہ دارکوکوئی جاہ و منصب دیاجائے توا س اعزاز یا منصب کا مستحق کون ہوگا؟ اس کافیصلہ حکومتی افراد یا پھر علماءدین شرع متین ازروئے شرع اسلام کریں ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے سامنے مولانا آزادؒ کا صحیح شجرہ نصب موجود ہو۔ تاہم سوال یہ ہوتا ہے کہ جو لو گ مولانا آزادؒکی خدمات یاان سے رشتہ داری کے سہارا کچھ یا بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، انہوں آزاد ؒ کے کارنامے کو زندہ وتابندہ لکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے کیا کچھ کیا ہے ۔ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈال کر انہیں کس نے زندہ رکھا ہے ؟ اس سوال پر ذرابھی توجہ دینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادؒ سے محبت کا دم بھرنے یا رشتہ داری بنانے والوں میں صرف فیروزبخت احمدہی نمایاں ہیں ۔ ان کی حیات و خدمات اورکارہائے نمایاں کا ذکر گرشتہ تین دہائیوں سے صرف وہی کررہے ہیں ۔ چونکہ موصوف تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا سے بھی وابستہ ہیں ، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مولانا آزاد کا خمیر ان کے اندر ہے ۔ کسی نہ کسی حد تک ان کے خیالات مولاناآزادؒ سے ہم آہنگ ہیں ۔ موصوف یہ نہ صرف کہ اردو کی زلف کو ہی سنوارتے ہیں بلکہ ہندی اورانگریزی کے بھی دلدادہ ہیں ۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی انگلش اخبارات بھی ان کے مضامین بڑے شوق سے نرالے انداز میں چھاپتے ہیں ، جن سے آزاد کے افکار وخیالات ٹپکتے نظر آتے ہیں ۔ فیروز بخت احمد کی یہ قناعت پسندی بھی قابل دادوتحسین ہے کہ ایک اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کبھی مولانا آزاد ؒ کا نام غلط طریقہ پر استعمال کرکے بڑے مقام تک پہنچنامناسب نہیں سمجھا ، حالانکہ فی الوقت وہ ملک کے انگلیوں پر گنے چنے چند ماہرتعلیم میں سے ایک ہیں۔ ہاں ! یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں کسی نامور قلم کار اور محب اردو نے فیروز بخت احمد کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے انہیں مولانا آزادؒ سے بھی دو قدم آگے بڑھادیا ۔ ھم ان کی صحافتی اور تدریسی خدمات کے منکر نہیں ، مگر وہ آزادؒ کے شانہ بہ شانہ ہی نہیں بلکہ دو قدم آگے ہیں ، قطعی اس کے قائل نہیں ۔

اب رہی بات جناب نجمہ ہپت اللہ کی تو ان کے کارنامے کچھ ایسے ہیں جنہیں سپرد ِ قلم وقرطاس کرتے بھی شرم وعار محسوس ہورہی ہے ۔63ویں یوم آزادی کے موقع پر نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے انٹر نیشنل سینٹر میں مولاناآزادؒ کی خدمات کو سراہنے کے لئے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا ، جس کا افتتاح چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کیا ، ان کی نظر جب مولانا آزاد کے شجرہ نصب پر پڑی تو نجمہ کا نام تھا اورفیروز بخت احمدکا نہیں ۔ انہوں نے افسر راجامنی سے اس بابت دریافت کیا توانہوں نے کہا ان کا نام مولانا آزاد ؒ کے رشتہ دارہونے میں متنازع ہے ،چنانچہ حکومت نے ان کا نام تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شجرہ نصب کیسے تیار کیاگیا ،جس میں اتنے قریبی رشتہ کو برطرف کردیاگیا ۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولاناکا بھارت رتن فیروزبخت احمد کے والد کو ملا ، وہ وارث اورفیروز صاحب نہیں ، آخر کیسا تضاد ہے یہ؟ اس ایوارڈ کوحاصل کرنے میں نجمہ نے بڑی چالاکی دکھائی ، مگرانہیں منہ کی کھانی پڑی۔
1988میں ”انڈیا فریڈم“کے آخری 30صفحات کی رائلٹی مولانا آزاد کے قریبی رشتہ دارکو ملنے والی تھی ، اس کے لئے بھی نجمہ ہپت اللہ نے سبک روی دکھائی مگرناکامی ہی ان کے ہاتھ آئی ۔ یہ بھی فروز بخت احمد کے والد جناب نورالدین ؒ کو ملی۔فی الواقع نجمہ کا یہ کردار ہر اعتبار سے قابل گرفت ہے ، ملک ھندوستان کی شرمساری ہے ، مولانا کے مداحوں کی بے عزتی ہے ، مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہے ۔ کیااس مدعے پر دانشمندوں اور حکومت کو نہیں سوچنا چاہئے

اب رہے جناب ِ عامر (بھائی خان صاحب ) جو اب بیدار ہوئے ہیں ، مولاناآزاد کی اب انہیں یادآئی ہے اور اپنے لخت جگر کے نام کے ساتھ ”آزاد“جوڑا ہے ، بہت اچھی بات ہے یہ ۔ مگریہ سوال ہوتا ہے کہ کیاکبھی انہوں نے کچھ ایساکیا جو آزاد کے کارنامے کو اجاگر کرے ؟کیاکبھی ان کی حیات و خدمات پر مبنی کوئی مضمون لکھایا ایسا کوئی بیان دیا ہے؟کیا کبھی ان کے افکار وخیالات کو پیش کر کے ملک کوسالمیت کے سایہ میں آنے کی دعوت دی ہے ؟
ان کی خبر پڑھ کر ملک کے بیشتر قارئین کو تعجب ہواکہ آخر مولانا آزاد ؒ ان کے پردادا کیسے ہیں ؟عامرخان کو چاہئے تھا کہ پہلے بھی مولانا آزادؒ سے رشتہ داری کا اظہار کرتے، مگر اب مولانا آزادؒ انہیں یاد آئے ہیں ، اس میں کیا راز پوشیدہ ہے ، وہ ان کے دیگر رشتہ دار جانیں ۔ ہمیں صرف عامر صاحب سے یہ کہنا ہے کہ آپ بھی مولاناکی حیات وخدمات کوزندہ وتابندہ بنانے کے لئے کچھ کریں ۔

یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ مولاناآزادؒ سے قریبی ہونے کی سیاست زور وںپر ہے ، مگر کوئی بھی ان کا سچا جانشیں نہیں ، ان کے خاندان کا کوئی قدآور سیاست داں نظر نہیں آتا ، کوئی جید عالم نہیں ، حالانکہ مولانا جو کچھ بھی تھے پہلے جید عالم تھے ، کیا ان سے رشتہ داری کا دعوی کرنے والے اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھا رہے ہیں ، کیا نہیں ہے یہ سوچنے کا موضوع؟ —

Wednesday 21 January 2015

کڑوا سچ ۔۔۔۔ مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمان کئی صدیوں سے اس حالت میں رہ رہے ہیں کہ آندھی کی طرح اٹھتے، طوفان کی طرح چھا جاتے اور گرد کی طرح بیٹھ جاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابوالکلام آزاد