Thursday 13 August 2015
Tuesday 14 July 2015
Sunday 12 July 2015
Thursday 9 July 2015
Tuesday 7 July 2015
Wednesday 1 July 2015
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را
لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کوئی کام نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا:
غبارِ خاطر سے اقتباس
تنہائی خواہ کسی حالت میں آئے اور کسی شکل میں، میرے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا پائے گی۔
Saturday 27 June 2015
پاکستان ایک سیاسی تجربہ ہے، اسے کامیاب کیجیے
Friday 26 June 2015
مولانا ابوالکلام آزاد کی سحر خیزیاں
Tuesday 23 June 2015
Sunday 24 May 2015
مسلمانانِ ہند سے خطاب ۔ جامع مسجد دہلی اکتوبر ۱۹۴۸
Tuesday 5 May 2015
Sunday 3 May 2015
مولانا ظفر علی خاں کے مولانا آزاد کے بارے میں تاثرات
آغا شورش کاشمیری "ابوالکلام آزاد" جو مولانا کی سوانح عمری ہے کہ صفحہ نمبر 482 میں رقمطراز ہیں
"مولانا محمد علی جوہر سے تو راقم شخصی نیاز نہیں رہا کہ ان کی رحلت کے وقت راقم ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن مولانا ظفر علی خاں سے شرفِ تلمذ حاصل کیا، خیبر سے مانڈلے تک ان کے ساتھ شریکِ سفر رہا۔ ہندوستان کی سیاست اور مختلف شخصیتوں کے بارے میں جب بھی اُن سے بات چیت ہوتی تو ان نجی محفلوں میں قلم و زبان کی تیزی سے پرہیز کرتے۔ ان کے تبصرے نہایت نپے تُلے اور لگے بندھے ہوتے۔ کئی دفعہ مولانا آزادؒ کا ذکر آیا تو ان کے متعلق نہایت وقیع رائے ظاہر کی۔ ایک دفعہ کہیں سفر پر جا رہے تھے عملہ نے اصرار کیا تو جاتے جاتے ایک طویل نظم بالبداہت ارشاد فرمائی، مطلع تھا
؎
مجھے بھی انتساب ہے ادب کے اس مقام سے
ملی ہوئی ہے جس کی حد قدم گہ نظام سے
دسواں یا گیارھواں شعر تھا؎
جہاں اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے
راقم ہمراہ تھا۔ استفسار کیا۔
Tuesday 21 April 2015
Friday 17 April 2015
مولانا ابوالکلام آزاد بحثیت شاعر
مولانا ابوالکلام آزاد بحثیتِ شاعر
Friday 10 April 2015
یادِ رفتگاں ۔۔۔۔ مولانا ابوالکلام آزاد
Thursday 26 February 2015
مولانا آزاد کا تکیہ کلام
Sunday 22 February 2015
مولانا ابوالکلام آزاد کا اندازِ گفتگو
Sunday 8 February 2015
امامِ عشقِ جنوں ۔ سید عبداللہ
۔۔۔
Saturday 7 February 2015
غبارِ خاطر ۔ PDF
Tuesday 3 February 2015
الہلال ۔۔۔۔ مختصر تعارف
مولانا ابوالکلام آزاد کا مختصر تعارف
مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جواکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھرجامعہ ازہر (مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ءمیں الہلال نکالا۔
یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگرس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ 22 فروری1958ءکو انتقال ہوا۔
بھارت کی سیاست میں مشہور، معروف اور مقبول ناموں میں سے مولانا آزاد کا نام تھا۔ بھارت کے عظیم لیڈروں میں مولانا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔
بیادِ مولانا ابوالکلام آزاد ۔۔۔ شورش کاشمیری
ہندوستاں کی روحِ رواں تھا ابوالکلام
لذتِ کشان بادۂ ایثار زندہ باد
اس انجمن کا پیرِ مغاں تھا ابوالکلام
اس سر زمیں کے منبر و محراب ہیں گواہ
بتخانۂ وطن میں اذاں تھا ابوالکلام
تھے اس پہ واشگاف سیاست کے پیچ و خم
اک شہ دماغ و سیفِ زباں تھا ابوالکلام
اربابِ اقتدار کی ہیبت سے بے نیاز
طاعت گزارِ ربِ جہاں تھا ابوالکلام
شورش جنہیں تھا اس کی بصیرت سے اختلاف
وہ اب سمجھ رہے ہیں کہاں تھا ابوالکلام
۔۔
آغا شورش کاشمیری
Monday 2 February 2015
مولانا آزاد سے کس کا کتنا رشتہ؟
بشکریہ Maulana Abul Kalam Azad (Abul Kalam Muhiyuddin Ahmed) مولانا ابوالکلام آزاد
عبقری اورنابغہ روزگار شخصیات سے انتساب یا ان سے قرابتداری کا اظہار کوئی عجب نہیں ، بلکہ مستحسن ہے ، باعث افتخار ہے ۔ یہ انتساب ازروئے شرع بھی غلط نہیں ۔ خودآقاءدوجہاں ﷺ نے بھی اپنی ذات کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات سے تشبیہ دی ہیں ،حنفیت میں بھی ان کی جانب اپنے کو منسوب کیا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیدائے حرم بھی اپنے نام سے قبل ”محمد“ لگاتے ہیں۔
مولانا آزاد (1888-1958) بھی نابغہ روزگار تھے ، اپنی مثال آپ تھے ، ایک طرف وہ آسمانِ صحافت پر محو پرواز تھے تو دوسری طرف فہم وفراست کے سمندرکے غواص و شناور ۔ معرفت الہی کے پیکر تھے ، علم کے بحرذخار تھے ،سیاسی بصیرت اورنکتہ سنجی کے امام تھے، اسی طرح علم دوست اورسچے محب وطن ہی نہیں مجاہد آزادی بھی تھے ۔ ایسی شخصیت سے انتساب ظاہر ہے باعث صد افتخار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد سے قرابتداری اور رشتہ داری بنانے کی سیاست ہمہ زمانہ تیز تر رہی ہے ۔ چونکہ مولانا کی کوئی کی اولاد بقیدحیات نہیں رہ سکی ،اس لئے ان کے ہر رشتہ دار ان سے قریب ترین ہونے کا اظہار کرکے سیاسی مراعات اور عہدہ کے حصول میں سرگرداں ہیں ۔ ان کا لیبل چسپاں کرکے اپنی ناک اونچی کرنے میں جٹے ہیں ۔ یوں تو کئی دہائیوں سے ہی یہ سلسلہ چل پڑا ہے ۔جناب نورالدین و جناب فیروز بخت احمد اور جناب نجمہ ہیبت اللہ کے درمیان کافی دنوں سے اسی کو لے کر کشیدگی ہے ۔ نجمہ صاحبہ اپنے آپ کو مولانا کی قریبی رشتہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کو شش کررہی ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اوربسااوقات کذب بیانی کی بھی نوبت آجاتی ہے ، ان کے اس عمل سے مولانا آزاد کے ثنا خوانوں اورمداحوں کو کفت بھی ہوئی ہے ۔
ادھر چنددنوں قبل عامر خان نے بھی اپنے لخت جگر کے نام کے ساتھ ”آزاد“ جوڑ کر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، عامر خان نے مولانا کو پردادا قراردیا ہے ۔ ان کے اس اقدام یااعلان کے بعد ملک کے بیشتر باشندگان کوتعجب ہوا کہ مولانا عامر خان کے کیسے پرداداہیں؟ کیونکہ ماقبل میں انہوں نے کبھی بھی مولانا کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا تھا ۔نجمہ صاحبہ کی کذب بیانی نقل کرنے سے قبل مناسب معلوم پڑتاہے کہ جناب فیروز بخت احمد ، جناب نجمہ ہپت اللہ اور جناب عامر خان کا مولاناآزاد ؒسے کیا رشتہ ہے، پر گفتگوکی جائے ۔
عامرخان:
مولاناآزادؒ کی ایک ہمشیرہ کا نام فاطمہ بیگم آرزو تھا ، جن کا نکاح سید معین الدین عرب سے ہواتھا ، ان کے یہاں پانچ اولادہوئیں ، آمنہ بیگم، یوسف علی ، حامد علی ، رقیہ بیگم اورصفیہ بیگم ۔ آمنہ بیگم (جو مولانا آزاد ؒکی بھانجی تھی)کا عقد جعفر علی خان شاہ آبادی سے ہوا ۔ ان کے بھی پانچ بچے تھے ، باقر حسین ، انیس جہاں ، بلقیس جہاں ، ناصر حسین اورطاہر حسین ۔ طاہر حسین کے ہی بیٹے مشہور ادارکار عامر خان ہیں ۔ یعنی مولانا آزادؒ کی بھانجی (آمنہ )عامر خان کی دادی تھی ،چنانچہ آمنہ کی ماں( فاطمہ) ان کی پردادی ہوئی اور مولانا آزاد ؒ عامر کی پردادی کے بھائی ،گویا مولانا ان کے پردادا ۔
نجمہ ہپت اللہ:
یوسف علی (جو آمنہ کے بھائی یعنی مولانا آزاد کے بھانجے تھے)کا عقد فاطمہ بنت محمد قاسم سے ہوا تھا ، ان کی تین اولاد ہوئیں ، اختر علی، نجمہ ہیبت اللہ اورعظمی ۔ نجمہ کے والدیوسف علی مولانا آزاد کے بھانجے تھے ، گویامولانا آزادؒ نجمہ کے ممیرے داداتھے ۔
مولانا آزاد کو حکومت کی جانب سے اب کوئی اعزاز یا ان کے قریبی رشتہ دارکوکوئی جاہ و منصب دیاجائے توا س اعزاز یا منصب کا مستحق کون ہوگا؟ اس کافیصلہ حکومتی افراد یا پھر علماءدین شرع متین ازروئے شرع اسلام کریں ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے سامنے مولانا آزادؒ کا صحیح شجرہ نصب موجود ہو۔ تاہم سوال یہ ہوتا ہے کہ جو لو گ مولانا آزادؒکی خدمات یاان سے رشتہ داری کے سہارا کچھ یا بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، انہوں آزاد ؒ کے کارنامے کو زندہ وتابندہ لکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے کیا کچھ کیا ہے ۔ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈال کر انہیں کس نے زندہ رکھا ہے ؟ اس سوال پر ذرابھی توجہ دینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادؒ سے محبت کا دم بھرنے یا رشتہ داری بنانے والوں میں صرف فیروزبخت احمدہی نمایاں ہیں ۔ ان کی حیات و خدمات اورکارہائے نمایاں کا ذکر گرشتہ تین دہائیوں سے صرف وہی کررہے ہیں ۔ چونکہ موصوف تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا سے بھی وابستہ ہیں ، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مولانا آزاد کا خمیر ان کے اندر ہے ۔ کسی نہ کسی حد تک ان کے خیالات مولاناآزادؒ سے ہم آہنگ ہیں ۔ موصوف یہ نہ صرف کہ اردو کی زلف کو ہی سنوارتے ہیں بلکہ ہندی اورانگریزی کے بھی دلدادہ ہیں ۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی انگلش اخبارات بھی ان کے مضامین بڑے شوق سے نرالے انداز میں چھاپتے ہیں ، جن سے آزاد کے افکار وخیالات ٹپکتے نظر آتے ہیں ۔ فیروز بخت احمد کی یہ قناعت پسندی بھی قابل دادوتحسین ہے کہ ایک اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کبھی مولانا آزاد ؒ کا نام غلط طریقہ پر استعمال کرکے بڑے مقام تک پہنچنامناسب نہیں سمجھا ، حالانکہ فی الوقت وہ ملک کے انگلیوں پر گنے چنے چند ماہرتعلیم میں سے ایک ہیں۔ ہاں ! یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں کسی نامور قلم کار اور محب اردو نے فیروز بخت احمد کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے انہیں مولانا آزادؒ سے بھی دو قدم آگے بڑھادیا ۔ ھم ان کی صحافتی اور تدریسی خدمات کے منکر نہیں ، مگر وہ آزادؒ کے شانہ بہ شانہ ہی نہیں بلکہ دو قدم آگے ہیں ، قطعی اس کے قائل نہیں ۔
اب رہی بات جناب نجمہ ہپت اللہ کی تو ان کے کارنامے کچھ ایسے ہیں جنہیں سپرد ِ قلم وقرطاس کرتے بھی شرم وعار محسوس ہورہی ہے ۔63ویں یوم آزادی کے موقع پر نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے انٹر نیشنل سینٹر میں مولاناآزادؒ کی خدمات کو سراہنے کے لئے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا ، جس کا افتتاح چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کیا ، ان کی نظر جب مولانا آزاد کے شجرہ نصب پر پڑی تو نجمہ کا نام تھا اورفیروز بخت احمدکا نہیں ۔ انہوں نے افسر راجامنی سے اس بابت دریافت کیا توانہوں نے کہا ان کا نام مولانا آزاد ؒ کے رشتہ دارہونے میں متنازع ہے ،چنانچہ حکومت نے ان کا نام تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شجرہ نصب کیسے تیار کیاگیا ،جس میں اتنے قریبی رشتہ کو برطرف کردیاگیا ۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولاناکا بھارت رتن فیروزبخت احمد کے والد کو ملا ، وہ وارث اورفیروز صاحب نہیں ، آخر کیسا تضاد ہے یہ؟ اس ایوارڈ کوحاصل کرنے میں نجمہ نے بڑی چالاکی دکھائی ، مگرانہیں منہ کی کھانی پڑی۔
1988میں ”انڈیا فریڈم“کے آخری 30صفحات کی رائلٹی مولانا آزاد کے قریبی رشتہ دارکو ملنے والی تھی ، اس کے لئے بھی نجمہ ہپت اللہ نے سبک روی دکھائی مگرناکامی ہی ان کے ہاتھ آئی ۔ یہ بھی فروز بخت احمد کے والد جناب نورالدین ؒ کو ملی۔فی الواقع نجمہ کا یہ کردار ہر اعتبار سے قابل گرفت ہے ، ملک ھندوستان کی شرمساری ہے ، مولانا کے مداحوں کی بے عزتی ہے ، مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہے ۔ کیااس مدعے پر دانشمندوں اور حکومت کو نہیں سوچنا چاہئے
عامرخان:
مولاناآزادؒ کی ایک ہمشیرہ کا نام فاطمہ بیگم آرزو تھا ، جن کا نکاح سید معین الدین عرب سے ہواتھا ، ان کے یہاں پانچ اولادہوئیں ، آمنہ بیگم، یوسف علی ، حامد علی ، رقیہ بیگم اورصفیہ بیگم ۔ آمنہ بیگم (جو مولانا آزاد ؒکی بھانجی تھی)کا عقد جعفر علی خان شاہ آبادی سے ہوا ۔ ان کے بھی پانچ بچے تھے ، باقر حسین ، انیس جہاں ، بلقیس جہاں ، ناصر حسین اورطاہر حسین ۔ طاہر حسین کے ہی بیٹے مشہور ادارکار عامر خان ہیں ۔ یعنی مولانا آزادؒ کی بھانجی (آمنہ )عامر خان کی دادی تھی ،چنانچہ آمنہ کی ماں( فاطمہ) ان کی پردادی ہوئی اور مولانا آزاد ؒ عامر کی پردادی کے بھائی ،گویا مولانا ان کے پردادا ۔
نجمہ ہپت اللہ:
یوسف علی (جو آمنہ کے بھائی یعنی مولانا آزاد کے بھانجے تھے)کا عقد فاطمہ بنت محمد قاسم سے ہوا تھا ، ان کی تین اولاد ہوئیں ، اختر علی، نجمہ ہیبت اللہ اورعظمی ۔ نجمہ کے والدیوسف علی مولانا آزاد کے بھانجے تھے ، گویامولانا آزادؒ نجمہ کے ممیرے داداتھے ۔
مولانا آزاد کو حکومت کی جانب سے اب کوئی اعزاز یا ان کے قریبی رشتہ دارکوکوئی جاہ و منصب دیاجائے توا س اعزاز یا منصب کا مستحق کون ہوگا؟ اس کافیصلہ حکومتی افراد یا پھر علماءدین شرع متین ازروئے شرع اسلام کریں ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے سامنے مولانا آزادؒ کا صحیح شجرہ نصب موجود ہو۔ تاہم سوال یہ ہوتا ہے کہ جو لو گ مولانا آزادؒکی خدمات یاان سے رشتہ داری کے سہارا کچھ یا بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، انہوں آزاد ؒ کے کارنامے کو زندہ وتابندہ لکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے کیا کچھ کیا ہے ۔ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈال کر انہیں کس نے زندہ رکھا ہے ؟ اس سوال پر ذرابھی توجہ دینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادؒ سے محبت کا دم بھرنے یا رشتہ داری بنانے والوں میں صرف فیروزبخت احمدہی نمایاں ہیں ۔ ان کی حیات و خدمات اورکارہائے نمایاں کا ذکر گرشتہ تین دہائیوں سے صرف وہی کررہے ہیں ۔ چونکہ موصوف تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا سے بھی وابستہ ہیں ، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مولانا آزاد کا خمیر ان کے اندر ہے ۔ کسی نہ کسی حد تک ان کے خیالات مولاناآزادؒ سے ہم آہنگ ہیں ۔ موصوف یہ نہ صرف کہ اردو کی زلف کو ہی سنوارتے ہیں بلکہ ہندی اورانگریزی کے بھی دلدادہ ہیں ۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی انگلش اخبارات بھی ان کے مضامین بڑے شوق سے نرالے انداز میں چھاپتے ہیں ، جن سے آزاد کے افکار وخیالات ٹپکتے نظر آتے ہیں ۔ فیروز بخت احمد کی یہ قناعت پسندی بھی قابل دادوتحسین ہے کہ ایک اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کبھی مولانا آزاد ؒ کا نام غلط طریقہ پر استعمال کرکے بڑے مقام تک پہنچنامناسب نہیں سمجھا ، حالانکہ فی الوقت وہ ملک کے انگلیوں پر گنے چنے چند ماہرتعلیم میں سے ایک ہیں۔ ہاں ! یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں کسی نامور قلم کار اور محب اردو نے فیروز بخت احمد کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے انہیں مولانا آزادؒ سے بھی دو قدم آگے بڑھادیا ۔ ھم ان کی صحافتی اور تدریسی خدمات کے منکر نہیں ، مگر وہ آزادؒ کے شانہ بہ شانہ ہی نہیں بلکہ دو قدم آگے ہیں ، قطعی اس کے قائل نہیں ۔
اب رہی بات جناب نجمہ ہپت اللہ کی تو ان کے کارنامے کچھ ایسے ہیں جنہیں سپرد ِ قلم وقرطاس کرتے بھی شرم وعار محسوس ہورہی ہے ۔63ویں یوم آزادی کے موقع پر نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے انٹر نیشنل سینٹر میں مولاناآزادؒ کی خدمات کو سراہنے کے لئے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا ، جس کا افتتاح چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کیا ، ان کی نظر جب مولانا آزاد کے شجرہ نصب پر پڑی تو نجمہ کا نام تھا اورفیروز بخت احمدکا نہیں ۔ انہوں نے افسر راجامنی سے اس بابت دریافت کیا توانہوں نے کہا ان کا نام مولانا آزاد ؒ کے رشتہ دارہونے میں متنازع ہے ،چنانچہ حکومت نے ان کا نام تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شجرہ نصب کیسے تیار کیاگیا ،جس میں اتنے قریبی رشتہ کو برطرف کردیاگیا ۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولاناکا بھارت رتن فیروزبخت احمد کے والد کو ملا ، وہ وارث اورفیروز صاحب نہیں ، آخر کیسا تضاد ہے یہ؟ اس ایوارڈ کوحاصل کرنے میں نجمہ نے بڑی چالاکی دکھائی ، مگرانہیں منہ کی کھانی پڑی۔
1988میں ”انڈیا فریڈم“کے آخری 30صفحات کی رائلٹی مولانا آزاد کے قریبی رشتہ دارکو ملنے والی تھی ، اس کے لئے بھی نجمہ ہپت اللہ نے سبک روی دکھائی مگرناکامی ہی ان کے ہاتھ آئی ۔ یہ بھی فروز بخت احمد کے والد جناب نورالدین ؒ کو ملی۔فی الواقع نجمہ کا یہ کردار ہر اعتبار سے قابل گرفت ہے ، ملک ھندوستان کی شرمساری ہے ، مولانا کے مداحوں کی بے عزتی ہے ، مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہے ۔ کیااس مدعے پر دانشمندوں اور حکومت کو نہیں سوچنا چاہئے
اب رہے جناب ِ عامر (بھائی خان صاحب ) جو اب بیدار ہوئے ہیں ، مولاناآزاد کی اب انہیں یادآئی ہے اور اپنے لخت جگر کے نام کے ساتھ ”آزاد“جوڑا ہے ، بہت اچھی بات ہے یہ ۔ مگریہ سوال ہوتا ہے کہ کیاکبھی انہوں نے کچھ ایساکیا جو آزاد کے کارنامے کو اجاگر کرے ؟کیاکبھی ان کی حیات و خدمات پر مبنی کوئی مضمون لکھایا ایسا کوئی بیان دیا ہے؟کیا کبھی ان کے افکار وخیالات کو پیش کر کے ملک کوسالمیت کے سایہ میں آنے کی دعوت دی ہے ؟
ان کی خبر پڑھ کر ملک کے بیشتر قارئین کو تعجب ہواکہ آخر مولانا آزاد ؒ ان کے پردادا کیسے ہیں ؟عامرخان کو چاہئے تھا کہ پہلے بھی مولانا آزادؒ سے رشتہ داری کا اظہار کرتے، مگر اب مولانا آزادؒ انہیں یاد آئے ہیں ، اس میں کیا راز پوشیدہ ہے ، وہ ان کے دیگر رشتہ دار جانیں ۔ ہمیں صرف عامر صاحب سے یہ کہنا ہے کہ آپ بھی مولاناکی حیات وخدمات کوزندہ وتابندہ بنانے کے لئے کچھ کریں ۔
یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ مولاناآزادؒ سے قریبی ہونے کی سیاست زور وںپر ہے ، مگر کوئی بھی ان کا سچا جانشیں نہیں ، ان کے خاندان کا کوئی قدآور سیاست داں نظر نہیں آتا ، کوئی جید عالم نہیں ، حالانکہ مولانا جو کچھ بھی تھے پہلے جید عالم تھے ، کیا ان سے رشتہ داری کا دعوی کرنے والے اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھا رہے ہیں ، کیا نہیں ہے یہ سوچنے کا موضوع؟ —