Wednesday 1 July 2015

افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را


لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کوئی کام نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا:

غالبا قدیم چینیوں نے زندگی کے مسئلہ کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھا تھا۔ ایک پرانے چینی مقولے میں سوال کیا گیا ہے "سب سے زیادہ دانش مند آدمی کون ہے؟،، پھر جواب دیا ہے "جو سب سے زیادہ خوش رہتا ہے"۔
اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے تو یقین کیجیے کہ زندگی کا سب سے بڑآ کام سیکھ لیا۔ اب اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اور کیا کیا سیکھا؟ خود بھی خوش رہیے اور دوسروں سے بھی کہتے رہیے کہ اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں۔
زمانہ حال کے ایک فرانسیسی اہلِ قلم آندری ژید کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی جو اُس نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھی ہے۔ خوش رہنا محض ایک طبعی احتیاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔۔ یعنی ہماری انفرادی زندگی کی نوعیت کا اثر صرف ہم ہی تک محدود نہیں رہتا، دوسروں کو بھی متعدی ہوتا ہے، یا یوں کہیے کہ ہماری ہر حالت کی چھوت دوسروں کو بھی لگتی ہے۔ اس لیے ہمارا اخلاقی فرض ہوا کہ خود افسردہ خاطر ہو کر دوسروں کو افسردہ خاطر نہ بنائیں
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را
۔۔۔۔۔
غبارِ خاطر سے اقتباس صفحہ نمبر 97 ، 98
۔۔۔