Wednesday 1 July 2015

غبارِ خاطر سے اقتباس

 تنہائی خواہ کسی حالت میں آئے اور کسی شکل میں، میرے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا پائے گی۔  ابتدا ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور جلوت سے گریزاں رہتا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبعِ وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی رہتی ہے۔ جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور وہ اپنی کامجوئیوں میں لگ گئی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غبارِ خاطر ۔۔ صفحہ 104،105

تنہائی خواہ کسی حالت میں آئے اور کسی شکل میں، میرے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا پائے گی۔
ابتدا ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور جلوت سے گریزاں رہتا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبعِ وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی رہتی ہے۔ جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور وہ اپنی کامجوئیوں میں لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ خاطر ۔۔ صفحہ 104،105