Friday 26 June 2015

مولانا ابوالکلام آزاد کی سحر خیزیاں

مولانا کی سحر خیزی
۔۔۔
آج تین بجے سے کچھ پہلے آنکھ کھل گئی تھی۔ صحن میں نکلا تو ہر طرف سناٹا تھا صرف احاطہ کے باہر سے پہرہ دار کی گشت و بازگشت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہاں رات کو احاطہ کے اندر وارڈروں کا تین تین گھنٹے کا پہرہ لگا کرتا ہے۔ مگر بہت کم جاگتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اُس وقت بھی سامنے کے برآمدے میں ایک وارڈر کمبل بچھائے لیٹا تھا اور زور زور سے خراٹے لے رہا تھا۔ بے اختیار مومن خان کا شعر یاد آ گیا:

ہے اعتماد مرے بختِ خفتہ پر کیا کی
وگرنہ خواب کہاں چشمِ پاسباں کے لیے

زندانیوں کے اس قافلہ میں کوئی نہیں جو سحر خیزی کے معاملے میں میرا شریکِ حال ہو۔ سب بے خبر سو رہے ہیں اور اسی وقت میٹھی نیند کے مزے لیتے ہیں۔
سونچتا ہوں تو زندگی کی بہت سی باتوں کی طرح اس معاملہ میں ساری دنیا سے اُلٹی ہی چال میرے حصے میں آئی ہے۔ دنیا کے لیے سونے کا جو وقت سب سے بہترا ہوا وہی میرے لیے بیداری کی اصل پونجی ہوئی ۔ لوگ ان گھڑیوں کو اس لیے عزیز رکھتے ہیں کہ میٹھی نیند کے مزے لیں۔ میں اس لیے عزیز رکھتا ہوں کہ بیداری کی تلخ کامیوں سے لذت یاب ہوتا رہوں۔
ایک بڑا فائدہ اس عادت سے یہ ہوا کہ میری تنہائی میں اب کوئی خلل نہیں ڈال سکتا۔ میں نے دنیا کو ایسی جراتوں کا سِرے سے موقع ہی نہیں دیا۔ وہ جب جاگتی ہے تو میں سو رہتا ہوں جب سو جاتی ہے تو اُٹھ بیٹھتا ہوں۔
خلائق کے کتنے ہی ہجوم میں ہوں لیکن اپنا وقت صاف بچا لے جاتا ہوں۔ کیونکہ میری اس خلوت در انجمن پر کوئی ہاٹھ ڈال ہی نہیں سکتا۔ میرے عیش و طرب کی بزم اس وقت آراستہ ہوتی ہے جب نہ کوئی آنکھ دیکھنے والی ہوتی ہے نہ کوئی کان سننے والا۔
ایک بڑا فائدہ اس سے یہ ہوا کہ دل کی انگیٹھی ہمیشہ گرم رہنے لگی۔ صبح کی اس مہلت میں تھوڑی سی آگ جو سلگ جاتی ہے اس کی چنگاریاں بجھنے نہیں پاتی، راکھ تلے دبی دبائی کام کرتی رہتی ہیں۔
دن بھر اگر سوز و تپش کا سامان نہ بھی ملے، جب بھی چولہے کے ٹھنڈے پڑ جانے کا اندیشہ نہ رہا۔ عرفیؔ کیا خوب بات کہہ گیا ہے

سینہء گرم نداری مَطلب صحبتِ عشق
 آتشے نیست چو در مجمرہ اَت ۔۔ عُود مَخر
۔۔۔
غبارِ خاطر صفحہ نمبر 76،77