Friday 10 April 2015

یادِ رفتگاں ۔۔۔۔ مولانا ابوالکلام آزاد

کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجاتی تھی۔ انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم نہرو تک ان سے وقت طے کرکے ملاقات کیا کرتے تھے۔ نہرو کا کہنا ہے کہ ’مولانا کےعلم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ دکھائی دیتا ہے‘ عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ ’ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آ پہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ فرمایا ’ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں‘ عرض کیا ’غور فرما لیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟ ‘کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ’اور کیا؟ گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے۔ گاندھی جی بھی مہاتما تھے بغیر ماتھے پہ شکن ڈالے واپس چلے گئے اور اگلے دن نو بجے تشریف لائے۔   ‘مولانا آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا نا ممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ وہ تحریر و تقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ حکمت میں عقدہ کشا، سیاست میں صاحب تدبیر، حکومت میں فیض ذیشان اور بزم میں صاحب علم و کمال تھے۔ ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثل شخصیت قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں۔‘‘بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں، بلکہ عہد سازتھیں

کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجاتی تھی۔ انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم نہرو تک ان سے وقت طے کرکے ملاقات کیا کرتے تھے۔ نہرو کا کہنا ہے کہ ’مولانا کےعلم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ دکھائی دیتا ہے‘ عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ ’ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آ پہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ فرمایا ’ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں‘ عرض کیا ’غور فرما لیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟ ‘کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ’اور کیا؟ گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے۔ گاندھی جی بھی مہاتما تھے بغیر ماتھے پہ شکن ڈالے واپس چلے گئے اور اگلے دن نو بجے تشریف لائے۔ 

‘مولانا آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا نا ممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ وہ تحریر و تقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ حکمت میں عقدہ کشا، سیاست میں صاحب تدبیر، حکومت میں فیض ذیشان اور بزم میں صاحب علم و کمال تھے۔ ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثل شخصیت قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں۔‘‘بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں، بلکہ عہد سازتھیں