Saturday 7 February 2015

غبارِ خاطر ۔ PDF




  ”غبار خاطر“ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔ اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور خط غبار من است این غبار خاطر سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے.


ابوالکلام آزاد کی انشاء پردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیب ِ نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و ابلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ تذکرے کے لیے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی۔ وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لیے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔

عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً چڑا چڑیا کی کہانی ہر چند ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔

” "لو گ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔"

مولانا کے طرز تحریر میں، انوکھا پن، شعریت، عالمانہ سنجیدگی اور دوسری خصوصیات مسلم ہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربیت کے غلبے کی وجہ سے کہیں کہیں عبارت گرانبار نظر آتی ہے۔ ذاتی معاملات کے بیان میں انہوں نے نسبتاً آسان اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کیا ہے لیکن ان میں بیچ بیچ میں عربی کے اشعار، فقرے، ضرب الامثال اور نامانوس الفاظ و تراکیب آجاتے ہیں۔ جن کا صحیح لطف ایک محدود طبقہ ہی اُٹھا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ فارسی آمیزاردو تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی اور فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباً تمام تحریریں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً تمام خطوط میں فارسی کے الفاظ اور اشعار بکثرت ملتے ہیں۔ آزاد کے حافظے میں بے شمار عربی و فارسی شعراءکے اشعار محفوظ ہیں اور وہ ان اشعار کو اپنی تحریروں میں برمحل استعمال کرتے ہیں۔

اگر ہم غبار خاطر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قلم سے جو نقش و نگار بنتے ہیں وہ ایک آرٹسٹ کی روح ہیں۔ جو اپنے آپ کو کبھی روحانیت، کبھی فلسفہ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی اذیت نواز غمگینی کے پیرائے میں ظاہر کرتے ہیں۔ اگر مولانا کے علمی انداز بیاں اور ادبی اسلوب کا تجزیہ کیا جا سکے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد کے افکار کا ایک بہاؤ ایک صحرائی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ جب وہ بہتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس چشمہ پر نہ تو کوئی پل باندھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے پانی پر ملاحوں کی کشتیاں تیرتی ہیں اور نہ اس کا پانی خس و خاشاک سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ یہ چشمہ ایک خاموش وادی کی آغوش میں جو مولانا کی فطرت ہے، بہتا چلا گیا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے مولانا کی دوسری تحریروں پر”غبار خاطر“ قابل ترجیح ہے۔ جن کے مکتوبات غالباً اس لحاظ سے لکھے گئے تھے کہ وہ کبھی شائع نہ ہوں گے۔ اس لیے ان مکتوبات میں مولانانے اپنے افکار کے بہت سے گوشے اور جہتیں بے تکلف ظاہر کر دیے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ”غبار خاطر“ کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
علامہ نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا:

”مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مزید کہتا رہوں گا۔“
اس مختصر مضمون کو ہم مولانا حسرت موہانی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں،

جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
۔