Sunday 22 February 2015

مولانا ابوالکلام آزاد کا اندازِ گفتگو

مولانا کا اندازِ گفتگو
۔۔۔۔۔

مولانا گفتگو کے عصری فرمانروا تھے۔ ہندوستان بھر میں ان سے بڑا گفتگو طراز کوئی نہ تھا۔ زبان ان کی لونڈی اور بیان ان کا پیش کار، اور علم ان کا مصاحب تھا۔ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کا شعلۂ گفتار کجلا جاتا، وہ کمزور گفت گو سن ہی نہ سکتے تھے۔ کسی نے بات کی انہوں نے جھول محسوس کیا فورا رشتۂ سخن کاٹ کے فرماتے تو میرے بھائی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں۔ اور جس کی بات ہوتی وہ حسرت و حیرت سے دیکھتا اور سوچتا کاش نطق کا یہ اعجاز مجھ میں ہوتا۔
ہندوستان کا کوئی مسلمان،  پارسی، ہندو یا سکھ رہنما ان کے پایہ کا گفتگو طراز نہ تھا۔ سب ان سے مرعوب ہوتے اور ان کے سحر میں بہہ جاتے تھے۔ اجمل خاں لکھتے ہیں:

"جی چاہتا تھا صبح سے شام ان کی شیرینیِ گفتار اور نمکینیِ ادا سے ذائقہ سماعت کرتے رہو"۔
(اردو ادب صفحہ نمبر ۲۷ آزاد نمبر)

ملیح آبادی نے ذکرِ آزاد میں لکھا ہے:
"مولانا از حد زندہ دل آدمی تھے۔ طبیعت میں مزاح کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ زیادہ سے زیادہ سنجیدہ اور خشک سے خشک مباحث کے لیے بھی ان کا ذہن ویسا ہی حاضر تھا جیسا کے مزاح و مزاق کے لیے، ایک ہی وقت میں مزاح بھی کرسکتے تھے اور سنجیدہ گفتگو بھی، بلکہ ان کی سنجیدہ گفتگو میں بھی ظرافت کی چاشنی رہا کرتی تھی۔"
لیکن ان کا مزاح پھکڑ، ابتزال اور طعن نہ تھا۔ وہ مطائبات کے حدود میں رہتے نہایت شستہ و رفتہ مزاق کرتے۔
دعا دے مجھے اے زمینِ سخن 
کہ میں نے تجھے آسماں کر دیا

۔۔۔